حوزہ نیوز ایجنسی I شعب ابوطالب وہ مقام تھا جہاں نبی اکرمؐ اور آپ کے خاندان و ساتھیوں نے اپنی زندگی کے سب سے کٹھن اور تاریک ترین تین سال گزارے۔ یہ وہ دور تھا جب ابتدائی مسلمان مکمل معاشی، سماجی اور جانی محاصرے میں رہے اور بھوک، بیماری اور موت سے مسلسل لڑتے رہے۔
محاصرہ کب اور کیسے شروع ہوا؟
شعب ابوطالب مکہ کے پہاڑوں کے درمیان ایک تنگ وادی تھی، جو ابوطالب "رسول خداؐ کے چچا" کی ملکیت تھی۔ اسی نسبت سے یہ جگہ شِعبِ ابوطالب کہلاتی تھی۔بعثت کے ساتویں سال جب قریش نے دیکھا کہ دھمکی، تشدد اور اذیتیں بھی اسلام کے پھیلاؤ کو نہیں روک پا رہیں، تو انہوں نے مسلمانوں اور بنوہاشم کے خلاف ایک منظم اور سخت قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ دارالندوہ میں قریشی سردار جمع ہوئے اور ایک ظالمانہ معاہدہ لکھا، جس کے مطابق: بنوہاشم اور بنوالمطلب سے ہر قسم کا سماجی اور اقتصادی تعلق ختم کر دیا گیا،ان سے خرید و فروخت ممنوع قرار دی گئی، ان کے ساتھ رشتہ داری اور نکاح منع کر دیا گیا، اور کسی کو ان کے ساتھ میل جول یا گفتگو کی بھی اجازت نہ تھی۔
یہ پورا معاہدہ ایک چمڑے کے ٹکڑے پر لکھ کر کعبہ کی دیوار پر لٹکا دیا گیا تاکہ سب لوگ اس کی پابندی کریں۔
قریش کا مقصد واضح تھا: شدید بھوک اور تنہائی کے ذریعے رسول اکرمؐ کو مجبور کیا جائے کہ وہ اپنی دعوت چھوڑ دیں، یا پھر بنوہاشم بھوک سے ختم ہو جائیں۔
نبی اکرمؐ اور بنوہاشم و بنوالمطلب کی چالیس سے زیادہ خاندان اس تنگ وادی میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے۔ یہ وادی ایک بڑے قیدخانے کی شکل اختیار کر گئی تھی، جہاں مرد، عورتیں، بچے اور ضعیف افراد انتہائی مشکل حالات میں زندگی گزار رہے تھے۔ محاصرہ اتنا سخت تھا کہ بھوک سے بلکتے ہوئے بچوں کی آوازیں مکے تک سنائی دیتیں، لیکن قریش کے دل نہیں پسیجتے تھے۔محاصرے میں زندگی: بھوک اور محرومی سے جنگ ان تین سالوں میں سب سے بڑا مسئلہ غذا کی فراہمی تھا۔
1. مخفیانہ رسد
عام دنوں میں کوئی شخص ان کے لیے کھانا لانے کی جرات نہیں کرتا تھا، کیونکہ قریش سخت نگرانی رکھتے تھے۔
صرف رات کی تاریکی میں چند باہمت افراد چھپ کر تھوڑا بہت اناج پہنچا دیتے۔ ان میں حکیم بن حزام (حضرت خدیجہؑ کے بھتیجے) خاص طور پر مشہور ہیں، جو اپنی جان خطرے میں ڈال کر خوراک پہنچاتے تھے۔
2. موسمِ حج میں محدود خریداری
حج کے مہینوں میں قریش کھلے عام رکاوٹ کھڑی نہیں کر سکتے تھے، اس لیے مسلمان بازار تک پہنچ جاتے، لیکن قریشی تاجروں نے اس کا حل بھی نکال رکھا تھا: وہ پہلے ہی تاجروں سے زیادہ قیمت پر سامان خرید لیتے، تاکہ کچھ بھی مسلمانوں کے لیے نہ بچے، اور اگر کچھ میسر بھی ہوتا تو اتنا مہنگا کہ وہ خرید نہ سکتے۔
حضرت خدیجہؑ نے ان تین سالوں میں اپنی پوری دولت خرچ کر ڈالی تاکہ خاندانِ رسولؐ کے لیے کسی نہ کسی طرح ضروریاتِ زندگی فراہم ہو سکیں۔ محاصرہ ختم ہونے تک ان کے پاس کچھ بھی باقی نہ رہا تھا۔
3. انتہائی فقر و فاقہ
عام دنوں میں جب کوئی راستہ نہیں ہوتا تھا، محصورین درختوں کے پتے، چھال اور خشک چمڑا پانی میں بھگو کر کھاتے تھے تاکہ بھوک کی شدت کم ہو جائے۔
بہت سے بچے اور بوڑھے سخت بھوک اور کمزوری کی وجہ سے جان کی بازی ہار گئے۔ عورتیں، خاص طور پر حاملہ اور دودھ پلانے والی مائیں، شدید اذیت میں تھیں۔
محاصرے کے دیگر پہلو
وادی سے نکلنا یا کسی کا اندر آنا تقریباً ناممکن تھا۔مہینوں تک قریش پہرے بٹھائے رکھتے کہ کوئی مدد نہ پہنچ سکے۔
تجارت مکمل طور پر روک دی گئی تھی کوئی ان سے خریدتا نہ بیچتا۔ جو بھی ان کی مدد کرتا، خود قریش کے غضب کا شکار ہو جاتا۔ یہ مکمل معاشی و سماجی بائیکاٹ تھا، جس کا واحد مقصد بنوہاشم کو جھکانا تھا۔
محاصرہ کیسے ختم ہوا؟ معجزۂ صحیفہ
بالآخر دس نبوی میں، تین سالہ ظلم و ستم کے بعد، قریش کے پانچ سرداروں کے دل پسیجے۔
یہ پانچ افراد تھے:
1. زہیر بن ابی اُمیہ
2. مطعم بن عدی
3. ابوالبختری بن ہشام
4. زمعہ بن اسود
5. ہشام بن عمرو
انہوں نے طے کیا کہ اس ظالمانہ معاہدے کو ختم کریں گے۔ جب وہ کعبہ میں لٹکی ہوئی صحیفہ (تحریر) کو پھاڑنے گئے تو رسول خداؐ نے پہلے ہی خبر دی کہ:
اللہ نے دیمک کو بھیجا ہے، جس نے صحیفے کی تمام ظالمانہ تحریر کھا لی ہے، سوائے "بسم اللہ الرحمن الرحیم" کے۔
جب صحیفہ اتارا گیا تو وہی منظر سامنے تھا—تمام الفاظ مٹ چکے تھے، صرف بسم اللہ باقی تھی۔
یہ منظر قریش کے ان افراد کو ہلاکر رکھ دینے کے لیے کافی تھا۔ انہوں نے صحیفہ پھاڑ دیا اور اعلان کیا کہ یہ معاہدہ باطل ہے۔
یوں تین سالہ محاصرہ ختم ہوا اور بنوہاشم و مسلمان وادی سے باہر آئے، اگرچہ بہت سے لوگ شدید کمزوری اور بیماری کا شکار تھے۔









آپ کا تبصرہ